محسن عباس
کیلگری ۔ کینیڈا
فرض کیا آپ کو کوئی لاعلاج دماغی بیماری لاحق ہے۔ اب آپ کے دماغ میں ایک چھوٹی سی مصنوعی سلیکون چپ لگا کر ٓاپکی زندگی بچا لی جائے تو آپ کیسا محسوس کریں گے؟ یقیناً بہت خوش ہوں گے ناں۔ جی ہاں اب یہ ممکن ہونے کو ہے اور اس کا سہرا پاکستانی نژاد کینیڈین سائنسدان ڈاکٹرنوید امام سید کے سر ہے۔
اس دوطرفہ حیاتیاتی چپ کے خالق پروفیسر نوید امام سید پاکستان کے صوبہ پنجاب کے شہر کیمبل پور(اٹک) میں پیدا ہوئے۔ جنہوں نے سائنس کے عہد میں ایک نئی جہد کو متعارف کرواتے ہوئےسائینس فکشن کی موویز کو سائینس فکشن سے نکال کر حقیقت کی شکل دے دی ہے۔ وہ دنیا کے پہلے سائنسدان ہیں جنہوں نے دماغی خلیے کی دوہری کارکردگی کو چانچنے والی جدید چپ کے ذریعے دماغ کا تعلق کمپیوٹر کے ساتھ جوڑ کر کرجو کارنامہ انجام دیا ہے وہ دنیا کا نہیں بلکہ انسان کا مستقبل بدلنے والی ایجاد ہے۔
یہ چپ دماغ کے خلیوں کی حرکات وسکنات کو سمجھنے میں مدد کرتی اور کمپیوٹر کے درمیان رابطہ بناتی ہے۔ اس میں نئی قسم کا طریقہ کار استعمال ہوا ہے جس کا پہلے استعمال کبھی نہیں ہوا ۔ اس جدید ترین ٹیکنالوجی کو اس برس کینیڈا کے البرٹا صوبے میں واقع یونیورسٹی ٓاف کیلگری میں انسانوں پر ٓازمایا جائے گا۔ اس چپ کے استعمال سے نہ صرف مرگی کے دوروں کا علاج دریافت ہو سکے گا بلکہ یہ دماغ میں دوروں کی وجہ سے پیدا ہونیوالی تبدیلیوں کا بھی پتہ دیگی۔ یہ انسانی دماغ کے خلیوں کو سن کر جواب بھی دے سکے گی۔
پنجاب کے قصبے سمندری میں بچپن گزارنے والے نوید سید نے کراچی سے بایومیڈیکل انجینئرنگ میں گریجویشن کی اور پھر لیڈز یونیورسٹی سے نیورو سرجری میں پی ایچ ڈی کیا۔ وہ طویل عرصے سے کینیڈا میں رہائش پزیر ہیں اور اس وقت یونیورسٹی آف کیلگری کے ہاٹچکس برین انسٹی ٹیوٹ کے چیف سائنسدان اوربطور پروفیسر درس و تدریس کے شعبہ سے وابستہ ہیں۔
ڈاکٹر نوید سید کی تیار کردہ چپ ایم آر آئی سے بھی مماثلت رکھتی ہے اور سرجن کو ایم آر آئی میں دوروں کی اصل جگہ کا تعین بھی کرنے میں مددگار تصور ہوگی اس طرح یہ چپ سرجیکل آلات اور تربیت کے معاملے میں بھی اہم کامیابی تصور کی جا رہی ہے۔
سائنسی میدان کے ماہرین کا خیال ہے کہ ڈاکٹر نوید کی اس ایجاد نے نہ صرف شعبۂ طب بلکہ آرٹیفیشل انٹیلی جنس (مضنوعی ذہانت) اور روبوٹکس کی دنیا میں ایک انقلاب برپا کردیا۔
دو دہائیوں کی تحقیق کے بعد ڈاکٹر نوید سید کی محنت رنگ لائی ہےاور انہوں نے انسانی دماغ کو یہ روشناس کروایا کہ وہ مشینوں کے ساتھ گفتگو کر سکے اور مشینوں کو سمجھ سکے اور انہیں پیغام دے سکے۔
ڈاکٹر نوید سید نے بی بی سی کو ایک خصوصی انٹرویو کے دوران بتایا کہ مسلسل دو دہائیوں کی تحقیق ، ڈیزائننگ اور متعدد تجربات کے بعد اب یہ چپ انسانوں پر آزمائش کے لیے بالکل تیار ہے۔ اس برس کسی بھی وقت اس چپ کومرگی کے ایسے مریضوں پر آزمایا جائے گا جو ٓاج تک موجود کسی بھی دوا سے ٹھیک نہیں ہوسکے۔
اس چِپ کے ذریعے انسانی افعال کو کسی حد تک کنٹرول کرنا ممکن ہے اور اب تک کی تحقیق کے مطابق اس سے نشے کی لت، مرگی اور رعشہ جیسی اعصابی بیماریوں کا علاج ممکن ہے۔
ڈاکٹر نوید امام سید نے بتایا کہ انہیں بچپن سے ہی تحقیق کا شوق تھا۔ جب وہ پنجاب کے قصبے سمندری میں رہائش پذیر تھے تو انہوں نے انتہائی چھوٹی عمر میں ایک برقی کھلونا کھول کر دوبارہ جوڑا اور اپنی والدہ کو حیران کردیا۔
“دماغ میں اربوں خلئے ہیں۔ جب یہ ایک دوسرے کے ساتھ مل جل کر کام کرتے ہیں تو ان کے تال میل کی وجہ سے سیکھنے، یادداشت جیسے عوامل وقوع پذیرہوتے ہیں۔ اگر ٓاپ نے دماغ کے فنکشن کو سمجھنا ہے تو اس کیلئے ضروری ہے کہ ٍ ٓاپ ایسی ٹیکنالوجی ڈیویلپ کریں جو ان دماغی خلیوں کے نیٹ ورک کو ریکارڈ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہو۔ جو ٓاج تک نہیں ہو سکا تھا۔”
انہوں نے مزید بتایا کہ کے پاس زمانہ طالبعلمی کے دوران ہی گینز بک ٓف ورلڈ ریکارڈ تھا جس میں وہ دماغ کےبارہ خلیوں کو ریکارڈ کیا کرتے تھے ۔ مگر بارہ خلیوں سے دماغ کی فنکشن کو سمجھنا ممکن نہیں ہے۔
“اس کے بعد میں نے کوشش کی کی ایک ایسی چپ تیار کی جائے جس سے ہزاروں کی تعداد میں دماغی خلیوں کی کارکردگی ریکارڈ کر لی جائے۔ جب ان کی کارکردگی کو ریکارڈ کر لیں گے تو ان کی ٓاپس میں فنکشننگ ہے اس کو ہم سمجھ سکتے ہیں۔ جب فنکشننگ کو سمجھ سکتے ہیں تو پھر اسی طریقے سے ڈسفنکشننگ کا بھی علاج ڈھونڈا جاسکتا ہے ۔ “
ڈاکٹر نوید نے بتایا کہ دماغ کے فنکشن سمجھنے کیلے ٓاپ کو ایسے ٓالات اور ٹیکنالوجی کی ضرورت ہے جو دماغ کے بڑے نیٹ ورکس کو ریکارڈ کر سکے۔ اور یہ چپ اس کا پہلا عمل ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ اگر دماغ کا کوئی حصہ مرگی، ٹراما، چوٹ یا رعشہ کی وجہ سے متاثر ہوجاتا ہے تو اس کا کوئی علاج نہیں ہے۔ ان حالات میں اگر ٓاپ ایسی چپ کو دماغ میں لگا دیں تو ٓاپ دماغ کے اس متاثرہ فنکشن کو دوبارہ بحال یا )ریکوور( کر سکتے ہیں۔
ڈاکٹر نوید سید کئی دوسرے پاکستانی نژاد سائنسدانوں سے مل کراسلام آباد میں ایک جدید سائنس اینڈ ٹیکنالوجی یونیورسٹی اور(Knowledge Mall) بنارہے ہیں۔ جس جا سنگ بنیاد رکھا جا چکا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ” تاریخ گواہ ہے کہ مسلمانوں نے علم کا ایک نایاب ذخیرہ چھوڑا ہے۔انھوں نے امراض کے علاج کے لیے حیرت انگیز ادویات کا استعمال کیا۔ ہم دماغی چِپ کے نئے زمانے میں داخل ہو رہے ہیں۔ علم میں سرمایہ کاری ہمیشہ منافع دیتی ہے۔اپنے خوابوں کو پورا کرنے کے لیے ضروری ہے کہ انسان غفلت کی نیند سے جاگے۔”
ڈاکٹر نوید سید کو کئی گینز بک ٓاف ورلڈ ریکارڈز کے علاوہ کئی عالمی اعزازوں سے نوازا جا چکا ہے۔ ان کا ذکر ان قابل ترین سائنس دانوں کی لسٹ میں کیا جاتا ہے جن کی ایجادات کی وجہ سے دنیا بدل گئی ہے۔
وہ ایک سو بیس سے زائد ریسرچ پیپرز لکھ چکے ہیں جو معروف سائنسی جرائد میں شائع ہوئے، ان کی غیر معمولی صلاحیتوں پر انہیں البرٹا ہیریٹیج فاؤنڈیشن میڈیکل ریسرچ ایوارڈ، کینیڈین- پاکستان کمبائنڈ بایو میڈیکل ریسرچ، کینیڈین سینسیشن ایوارڈز اور رائل کالج آف فزیشن ایڈن برگ کی اعزازی فیلو شپ سے نوازا جا چکا ہے۔
سن دو ہزار سترہ میں ڈاکٹر نوید امام سید کو کینیڈا کی ایک سو پچاس سالہ تاریخ میں ان اہم شخصیتوں میں شامل کیا گیا ہے جنہوں نے کینیڈا کی ترقی میں اہم کردار ادا کیا۔ انکی خدمات کے اعتراف پر سینٹ 150 ایوارڈ سے نوازا گیا۔ اسی برس ان کو حکومت پاکستان نے بھی تمغہ امتیاز سے نوازا۔