
”میں نے ایک اچھی ماں بننے کے لیے ہی اپنی بیٹی کو چھوڑا، مگر اس دوری نے میری کمر توڑ کر رکھ دی ہے”
اپنی بیٹی کو بھارت چھوڑ کر کینیڈا میں بہتر مستقبل کی تلاش میں کینیڈا آنے والی روشنی کرسچن کی کہانی انہی کی زبانی.
میرے جینے کی وجہ ہی میری بیٹی ہے۔ وہ میری طاقت، حوصلہ اور جرات کا باعث ہے. اسے ایک بہتر دنیا اور زندگی دینے کے لیے میں نے اسے چھوڑ دیا تھا۔ مگر آج تک اپنی بیٹی کو چھوڑنے کا غم اور پشیمانی کا احساس تازہ ہے۔
2009 میں اس کی ولادت کے بعد میری تو جیسے دنیا ہی بدل گئی تھی اور مجھے ممتا کا عظیم رشتہ نبھانے کا موقع نصیب ہوا، دنیا میں اس سے بڑھ کر اور کوئی خوشگوار احساس نہیں ہوسکتا تھا۔ اس کی خوبصورت کالی آنکھیں تھیں، موٹے گال تھے اور معصوم سی مسکراہٹ تھی جو میرے سارے دکھوں کو دھو ڈالتی تھی۔ اسے ہاتھوں میں تھامنے اور اپنے ہی گوشت اور خون کو مختلف شکل اور خوبصورت تخلیق کی صورت میں دیکھنے کا تجربہ بڑا ہی شاندار تھا۔
اپنی تنازع کی شکار شادی کے بعد میری بیٹی ہی میری زندگی کا مقصد اور درمانِ حیات بن گئی تھی۔ اس کی پیدائش سے قبل میں نے اپنے والدین کو بتائے بغیر ان کی مرضی کے خلاف شادی کی تھی۔ اس وقت میری عمر 24 برس تھی، اس لیے ان مشکل حالات سے نمٹنے کے قابل نہیں تھی حتیٰ کہ میں نے خودکشی کی کوشش بھی کی۔
مجھے اس بات کا اندازہ تھا کہ اگر میں بھارت میں ہی مقیم رہی تو میری فیملی کی ضروریات پوری نہیں ہوپائیں گی۔ چنانچہ میں نے اپنے شوہر کے ساتھ انگلینڈ جانے اور مزید تعلیم حاصل کرنے کا فیصلہ کیا۔ میرے والدین نے میرے فیصلے کی حمایت کی اور اس یقین دہانی کے ساتھ حوصلہ بندھایا کہ انگلینڈ میں سیٹل ہونے تک وہ میری بیٹی کا خیال رکھیں گے۔
ایک ہی وقت انگلینڈ جانے کی پرجوشی اور بیٹی کو اپنے ساتھ نہ لے جانے کا دکھ بلاشبہ بڑا ہی عجیب تجربہ رہا۔ برطانیہ روانگی سے ایک ماہ قبل تک میں اپنی بیٹی کو چھاتی کا دودھ پلا رہی تھی تب اس کی عمر محض ڈیڑھ برس ہی تھی۔ ہم دونوں نے ایک دوسرے کے ساتھ ابھی مختصر وقت ہی گزارا تھا اور ہمارا آپسی جسمانی اور جذباتی تعلق گہرا ہوا ہی تھا کہ بیٹی کو چھوڑنا پڑا، بیٹی سے دوری پر میرا دل حلق کو آنے لگا تھا۔
میرے ذہن میں ڈھیروں سوالات پیدا ہونے لگے۔ میں وہاں اس کے بغیر کیسا محسوس کروں گی؟ میری بیٹی کیسا محسوس کرے گی؟ اس پر ہماری دوری کے کیسے اثرات مرتب ہوں گے؟ کہیں وہ مایوس تو نہیں ہوجائے گی؟
میں خود سے سوال کرنے لگی کہ آیا میں درست فیصلہ کر رہی ہوں؟ یا کہیں میں اپنی ممتائی فطرت کے خلاف تو نہیں جا رہی ہوں؟
روانگی کے دن ایئرپورٹ پر سیکیورٹی میں داخل ہونے سے قبل میں نے آخری چند لمحوں کے لیے اپنی بچی کو اپنے ہاتھوں میں تھاما۔ جب میں اسے والد کے ہاتھوں میں تھما رہی تھی اس وقت میری بیٹی کو تھوڑا سا بھی اندازہ نہیں تھا کہ کیا ہونے جا رہا ہے۔
میرا دل زور زور سے دھڑک رہا تھا، سانسیں بھاری سی ہونے لگی تھیں اور پھر میرے آنسووں کا بند ٹوٹ گیا۔ میرے درد کا یہ عالم تھا کہ جیسے میرے کسی نے ٹکڑے ٹکڑے کردیے ہوں اور میرا دل مجھ سے چھین لیا گیا ہو۔ جہاز کی طرف بڑھتے ہر قدم کے ساتھ میں خود کو ایک ہارے ہوئے شخص کی طرح محسوس کر رہی تھی۔
برطانیہ جانے کی خوشی کھو چکی تھی اور اپنی بیٹی کی زندگی سے سمجھوتہ کرنے پر پشیمان محسوس کر رہی تھی۔
میں نئے ملک اور اس کی ثقافت سے لطف اندوز ہونا چاہتی تھی لیکن خالی پن، شکست خوردگی اور شرمساری کا احساس مجھ پر غالب رہا۔ اپنی بچی کو اس تکلیف دہ علیحدگی سہنے پر مجبور کرنے پر میں خود کو کوسنے لگی تھی۔ مجھے انگلینڈ جانے کے اپنے فیصلے پر قائم رہنا تھا اور ہم اس امید کے ساتھ زندگی کے سفر میں آگے بڑھے کہ ایک دن اپنی بیٹی کو یہاں اپنے ساتھ رکھنے کے قابل ہوجائیں گے۔
مگر بیٹی سے دوبارہ ملنے کا سپنا ایک خواب ہی رہا۔ شوہر کے ساتھ تعلقات میں مسائل پیدا ہوگئے جو جسمانی، جذباتی اور زبانی تشدد تک بڑھ چکے تھے۔ میں نے اپنے گھروالوں کے بغیر خود کو لاچار اور تنہا محسوس کیا۔ اس دوران میں نے خود کو پنجرے میں پھنسے ایک پرندہ جیسا محسوس کیا۔ میں نے خود کو ثقافتی اقدار، قوانین، داغ رسوائی اور ٹیبو تصورات کی سلاخوں میں گھرا ہوا پایا اور مجھے بطور طلاق یافتہ خاتون اور سنگل ماں کے القابات کے ساتھ نوازے جانے اور لوگوں کی باتیں سننے کا خوف ستانے لگا تھا۔
مگر میں نے ہمت جٹائی اور ان سلاخوں کو توڑ کر خود کو آزاد کیا۔ میں نے خوف کا مقابلہ کیا اور اپنے شوہر سے رشتہ توڑ دیا، جو کہ بکھیردینے والا تجربہ تھا۔ زندگی کے ان سیاہ ترین لمحات میں میری بیٹی کا چہرہ ہمیشہ میری آنکھوں کے سامنے رہا۔ وہ میری ہمت بنی اور مجھے سیاہ ترین وقتوں سے گزرنے کا حوصلہ دیا۔ میں ٹوٹ چکی تھی لیکن مجھے خود کو یکجا کرنا تھا اور اپنی بچی کے لیے جینا تھا۔
بالآخر میں نے انگلینڈ چھوڑ کر بھارت میں مقیم اپنے والدین اور اس وقت تک 6 برس کی عمر کو پہنچنے والی اپنی بیٹی کے پاس لوٹنے کا فیصلہ کیا، اس فیصلے نے میرے زخموں کو بھرنے میں میری کافی مدد کی۔ ان سے دوبارہ مل کر میں بہت خوش تھی مگر میں اپنی بیٹی کو اور بھی اچھی زندگی دینا چاہتی تھی۔ میں اسے مجھ سے زیادہ کامیاب دیکھنا چاہتی تھی یعنی زیادہ مواقع اور آزادی دینا چاہتی تھی اور یہ بھی جانتی تھی کہ زندگی کے اتار چڑھاو میں خدا نے ہمیشہ میرا ساتھ دیا ہے اور دیتا رہے گا۔
بھرپور تحقیق کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچی کہ ہمارا بہتر مستقبل کی راہ کینیڈا کو جاتی ہے۔ اس بار میں پوری طرح سے تیار تھی کیونکہ میں پہلے سے زیادہ مضبوط، باشعور اور تجربہ کار خاتون بن چکی تھی۔
most.
اپنی کاوشوں سے میں ایک بار پھر اپنی بیٹی کو پیچھے چھوڑ کر یہاں اسٹوڈینٹ ویزا پر چلی آئی۔ میں نے فیصلہ کیا تھا کہ جب میں اسے اسپانسر کرنے کے قابل بن جاوں گی تو اسے یہاں اپنے پاس بلا لوں گی۔ میں نے continuing care کی پڑھائی مکمل کی اور cognitive یا ادراکی معذوریوں کے شکار بالغین کے گروپ ہوم میں ملازمت کرنے لگی۔ میں نے ان لوگوں میں ہر روز اپنے پیار، خلوص اوردیکھ بال سے اپنا مقام بنایا کیونکہ یہ لوگ آپ سے اتنا ہی تقاضا کرتے ہیں۔
اب میری تمام تر توجہ کا مرکز زندگی کی آخری الجھن کو سلجھانے پر مرکوز ہے، جی ہاں اپنی بیٹی سے دوبارہ ملاقات، خاص طور پر اب جبکہ بھارت کورونا وائرس کی شدید لہر کی لپیٹ میں ہے ایسے میں اس کی فکر کھائے جاتی ہے۔
مگر اس ملک کی مستقل رہائشی بننے کے لیے دی گئی میری درخواست گزشتہ 2 برس سے آگے نہیں بڑھی۔ یہ دیکھ کر دکھ ہوتا ہے کہ جہاں دیگر شعبہ صحت کے کارکنان کو 12 سے 15 مہینوں کے اندر ہی مستقل رہائش کی درخواستوں کو منظور کرلیا جاتا ہے وہیں مجھے صرف یہی جواب ملتا ہے کہ کورونا وائرس کے باعث تاخیر ہو رہی ہے۔
غیرمستحکم نظام کے باعث ہم جیسی پھنسی ہوئی فیملیز فراموشی کا شکار ہوجاتی ہیں۔ گزشتہ 13 برسوں میں کوئی ایک ایسا دن نہیں گزرا جب میرا دل، ذہن اور جسم تڑپ نہ اٹھا ہو۔
بہت سارے لوگ اپنا ملک چھوڑ کر کینیڈا آتے ہیں۔ وہ اپنے بچوں کو روشن مستقبل، امید اور مواقع دینے کے خواب سجا کر ایسا کرتے ہیں۔ میں ان بہت سارے لوگوں میں سے ایک ہوں جو ایک بہتر مستقبل کی آس لگا کر اپنی جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہیں۔
میں اکثر اپنے تصور میں اپنی 12 سالہ بیٹی، اور اس کی چمکدار آنکھیں اور مسکراہٹ کو لاتی ہوں۔ وہ آج بھی میرے حوصلے کو بُلند رکھنے کا سامان ہے۔ میں ہم دونوں کے ملاپ کی دعا کرتی ہوں تاکہ میری ادھوری ممتا مکمل ہوجائے۔
لکھاری کا تعارف: روشنی کرسچئن یارکٹن میں مقیم ہیں اور کاگنیٹو یا ادارکی معذوریوں کے شکار بالغین کو اپنی خدمات فراہم کر رہی ہیں۔ وہ اپنے آبائی ملک بھارت میں رجسٹرڈ شدہ نرس کی حیثیت سے تعلیم مکمل کرنے کے بعد کینیڈا میں نرس بننے اور اپنی بیٹی کو اپنے ساتھ اس ملک میں بسانے کی خواہاں ہیں۔