
پاکستان کے دفتر خارجہ نے سابق کینیڈین وزیر کے ٹوئٹر پیغام پر اپنے سخت رد عمل میں کہا ہے کہ سابق وزیر کا بیان افغان امن عمل اور زمینی حقائق سے ان کی لاعلمی ظاہر کرتا ہے۔
کچھ دن پہلے سابق کینیڈین وزیر الیگزینڈر نے پاکستان پر افغان طالبان کی مدد کا الزام عائد کیا تھا۔
واضح رہے کہ الیگزینڈر نے اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر لکھا تھا کہ طالبان جنگجو پاکستان سے سرحد پار کرکے افغانستان میں داخل ہونے کا انتظار کر رہے ہیں، جو کوئی بھی افغانستان کے خلاف پاکستان کے جارحانہ عمل سے انکار کر رہا ہے وہ درحقیقت جنگی جرائم اور پراکسی وار میں ملوث ہے۔
دفتر خارجہ نے بذریعہ ٹوئٹ اس بیان کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ‘ہم سابق کینیڈین وزیر کرس الیگزینڈر کے افغان امن عمل میں پاکستان کے کردار سے متعلق بے بنیاد اور گمراہ کن دعوؤں پر مشتمل غیر مناسب تبصرے کی شدید مذمت کرتے ہیں’۔
دفتر خارجہ کے ترجمان نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ ہم نے کینیڈین حکام پر زور دیا ہے کہ اس بدنیتی پر مبنی مہم سے نمٹنے کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔
بیان میں کہا گیا کہ آج جہاں پوری دنیا وزیر اعظم عمران خان کے اس بیان کو تسلیم کر رہی ہے کہ افغانستان کا کوئی فوجی حل نہیں ہے اور ایک جامع و وسیع البنیاد سیاسی تصفیے کی ضرورت ہے، وہیں اس نوعیت کا غیر مناسب تبصرہ قابلِ افسوس ہے۔’
جو بائیڈن کی جانب سے افغانستان سے فوجی انخلاء کے اعلان کے بعد سے پاکستان کے وزیراعظم عمران خان امریکی پالیسی پر نکتہ چینی کرتے نظر آرہے ہیں جس پر مغربی حلقے خوش نہیں ہیں۔
عمران خان افغانستان کے ٹولو نیوز کو دیے گئے انٹرویو میں کہہ چکے ہیں کہ جب افغانستان میں ڈیڑھ لاکھ نیٹو افواج موجود تھیں اس وقت ہی امریکا کو طالبان سے بات چیت کا سلسلہ شروع کردینا چاہیے تھا۔ اب جب انخلا کی تاریخ دے دی گئی ہے اور فوجیوں کی محدود تعداد موجود ہے ایسے میں وہ کس طرح یہ توقع کرسکتے ہیں کہ طالبان سمجھوتے پر راضی ہوجائیں گے۔
دوسری جانب سابق کینیڈین وزیر الیگزینڈر پہلے بھی افغانستان کے معاملے میں ‘پاکستان کی بے جا مداخلت’ پر کھلی تنقید کرچکے ہیں۔ دی گلوب اینڈ میل میں شائع ہونے والے اپنے ایک مضمون میں انہوں نے لکھا کہ افغانستان میں پراگزی جنگ کے معاملے پر پاکستان سے نمٹنے میں ناکامی سے امریکی اسٹریٹجک وقار کو اکیسویں صدی کا اب تک کا سب سے بڑا نقصان پہنچا ہے، امریکا نے اسی طرح سے اپنے پیر پر کلہاڑی ماری ہے جیسے 2003 کی عراق جنگ کے بعد ماری تھی۔ انہوں نے یہ بھی لکھا تھا کہ افغانستان کو صرف اور صرف پاکستان سے امن سمجھوتے کی ضرورت ہے۔
انہوں نے عمران خان کو طالبان کا حامی قرار دیا تھا جبکہ پاکستان کے آرمی چیف پر بھی طالبان کو طاقت کے حصول میں مدد فراہم کرنے کا الزام عائد کیا۔