
رپورٹ : محسن عباس
مانٹریال کینیڈا
امریکہ میں ستمبر گیارہ سن دو ہزار ایک میں ہونے والے حملوں کے بعد جب وہاں پر غیر قانونی طور پرمقیم تارکین وطن کی پکڑ دھکڑ کا سلسلہ شروع ہوا تو ہزاروں پاکستانیوں نے کینیڈا کا رخ کیا۔
ان غیر قانونی طور پر مقیم پاکستانی تارکین وطن کی ایک بڑی تعداد ہجرت کرکے کینیڈا کے فرانسیسی آبادی والے صوبے کیوبک کے شہر مانٹریال میں آکر آباد ہوئی۔
سید مختار حسن اب یہاں اردو کا اخبار شائع کرتے ہیں اور پاکستانی کمیونٹی میں بہت متحرک ہیں۔ ان کو اج بھی وہ دن یاد ہیں جب پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد بے سروسامانی کی حالت میں اس شہر میں پہنچی۔
گیارہ ستمبر سے پہلے امریکہ پاکستانیوں کیلئے بہت اچھی جگہ تھی جہاں لوگ بے دھڑک رہتے تھی۔ نہ کوئی خوف تھا۔ ستمبر گیارہ کے حملوں کے بعد لوگ خوف کا شکار ہوئے اور وہاں سے ہجرت کرکے کینیڈا میں جو پہلا سٹیشن ان کو پڑا وہ تھا مانٹریال۔ ان دنوں ہزاروں کی تعدادمیں پاکستانی یہاں منتقل ہوئے۔
یہ مانٹریال شہر میں “جنتا لون” کا علاقہ ہے۔ اس علاقے کو لٹل پاکستان کے نام سے پکاراجاتا ہے۔ اس وقت مانٹریال میں تیس ہزار کے لگ بھگ پاکستانی نژاد تارکین وطن اباد ہیں۔ جن میں سے اکثریت امریکہ سے ہجرت کرکے انیوالے ان خاندانوں کی ہے جن کی بدولت “جنتا لون” اج لٹل پاکستان بن چکا ہے۔
جنتا لون میں زیادہ لوگوں کا تعلق پنجاب سے ہے۔ ان لوگوں کی ایک کثیر تعداد کاروبار سے منسلک ہے۔ ستمبر گیارہ کے بعد کینیڈا حکومت اور اس صوبے کی حکومت نے ان میں سے اکثر کو سیاسی پناہ دی۔ ان کو ویلفئیر دی اور کھلے دل سے قبول کیا۔ 14 اگست کے میلے اور مذہبی تہواروں پر میں لوگ بھرپور شرکت کرتے ہیں۔ خاص طور پر جب پاکستان میں کوئی پرابلم ٓاتی ہے تو ہم زیادہ متحد ہوجتے ہیں۔ وہ 2007 کا زلزلہ ہو یا کوئی اور ہم اپنے ملک کا درد رکھتے ہیں۔
جنتا لون کا علاقہ کینیڈا کے موجودہ وزیر اعظم جسٹن ٹرودو کے سیاسی حلقے میں واقع ہے۔ کینیڈا کے صوبائی اور وفاقی انتخابات میں پاکستانی کمیونٹی اپنے حق رائے دہی کا بھرپور استعمال کرتی نظر اتی ہے۔ جس کی وجہ سے اس علاقے میں پاکستانی کمیونٹی کی ترقی کافی نمایاں ہے۔
شارق محمود قریشی کا تعلق پاکستان کے صوبے کے پی کے کے شہر نوشہرہ چھاونی سے ہے۔ وہ کئی برس قبل اس علاقے میں ائے اور پھر کہیں اور جانے کا نہ سوچا۔ وه اس علاقے میں گروسری سٹور چلا رہے ہیں۔ وه یہاں بہت خوش ہیں۔
جب سے مانٹریال ایا ہوں اسی علاقے میں مقیم ہوں۔ اب یہ پاکستانی کمیونٹی کا گڑھ ہے۔، جب ہم لوگ ٓائے تو یہ یونانی کمیونٹی کا گڑھ تھا مگر اہستہ اہستہ وہ چلے گئے ۔کوئی یہاں سے کسی دوسرے علاقے میں نہیں جانا چاہتا۔ پاکستانی ماحول ہے۔ اس علاقے میں چھ سات مساجد ہیں۔ روزانہ دوکان پر فرانسیسی بولتا ہوں مگر گاہکوں کی اکثریت اپنے ہی لوگ ہیں۔
امریکی سرحد سے صرف چالیس کلومیٹر کی مسافت پر واقع اس شہر میں زندگی کافی مختلف ہے۔ یہاں پر موسم سرما میں شدید سردی اور برف باری ہوتی ہے۔ یہ کینیڈا کا واحد صوبہ ہے جہاں سرکاری زبان انگریزی کی بجائے فرانسیسی ہے۔ جس کی وجہ سے نئے ٓانیوالوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
سب سے بڑی تکلیف موسم تھا۔ ہم نے منفی 60 بھی دیکھا ہے۔ شروع میں پاکستانی کمیونٹی اتنی نہیں تھی جتنی اج ہے۔ ہم اب اپنی فیملی کے چھ لوگ ہیں۔ جب یہاں پہنچے تو اس شہر نے ہمارے ساتھ بہت اچھا سلوک کیا۔ فرانسیسی لوگ بہت پیار کرنے والے لوگ ہیں۔ اگر اپ ان سے پیار کریں گے تو وہ اپ سے پیار کریں گے۔ امریکی اور کینیڈا کی زندگی میں بہت فرق ہے۔ یہاں سوشل لائف ہے۔ یہاں اپ باہر دوستوں اور خاندان کو وقت دے سکتے ہیں۔ امریکہ میں کسی کے پاس وقت نہیں ہے۔ زیادہ تر پاکستانی لوگ اجکل ٹرکوں کے کاروبار میں ارہے ہیں ۔
کینیڈا میں عام طور پر پناہ کی درخواست دینے والوں کواپنی جیب سے وکیل کو کوئی فیس ادا نہیں کرنا پڑتی۔ہزاروں کی تعداد میں پاکستانی کینیڈا میں داخل ہوئے اور ان میں سے اکثریت کو انسانی ہمدردی کی بنا پر پناہ مل گئی ۔ حکومت نے ان خاندانوں کو پناہ کے ساتھ ساتھ ماہانہ الاونس اور دیگر سہولتیں بھی مہیا کیں۔ جس کی بدولت یہ لوگ اج کینیڈا میں ایک کامیاب زندگی گزار رہے ہیں۔ویسے بھی اس صوبے میں امیگریشن حاصل کرنا ٓاسان ہے ۔ جسکی وجہ سے پاکستان سے بھی طالبعلم اسانی سے اس شہر منتقل ہورہے ہیں۔
شاہد چودھری کا تعلق پاکستان کے شہر سرگودھا سے ہے۔ وہ پاکستان میں اپنی گاوں کی زندگی کو بہت یاد کرتے ہیں۔ ان کیلئے فرانسیسی زبان سیکھنا ایک انتہائی مشکل مرحلہ تھا۔ زبان سے ناواقفیت کی وجہ سے انہوں نے اس شہر میں بہت تکالیف کا سامنا کیا ۔ سخت محنت نے ان کو اس کا پھل دیا اور وہ اللہ کے بہت شکر گزار نظر اتے ہیں۔
میں اس شہر میں عارضی طور پر ایا تھا مگر پھر اس شہر سے پیار ہوگیا۔ یہاں تھوڑے پیسوں میں اچھی زندگی بسر کی جا سکتی ہے اس شہر میں یورپ اور امریکی زندگی کا ملاپ ہے۔فرانسیسی زبان سیکھنا ایک نیا تجربہ تھا۔ اٹھارہ برس پہلے گروسری سٹورز، ریستورنتس اور کارخانوں میں بھی بطور مزدور کام کیا۔ منفی پینتالیس ڈکری سخت سردی میں بغیر گاڑی برفیلے موسم میں گھروں کے دروازوں پر جا کر موبائل فون بیچے۔
کینیڈا میں پاکستانی کمیونٹی بہت محنت کر رہی ہے۔ اس شہر سے کئی خاندان مستقل سکونت حاصل کرنے کے بعد دوسرے شہروں میں بھی منتقل ہوگئے۔ اب پاکستان سے بھی پڑھے لکھے لوگ اس شہر کا رخ کر رہے ہیں۔
فرانسیسی زبان یہاں انیوالوں کیلئے ایک چیلنج تھا مگر یہاں پلنے بڑھنے والی نوجوان نسل اس زبان سے واقفیت کی بنا پر کینیڈا بھر میں نوکریوں کے سلسلے میں اس زبان کا بھرپور فائدہ اٹھا رہی ہے۔
ستمبر گیارہ کے بعد جنتا لون میں مکان کرائے پر ملنا مشکل تھا۔ اس علاقے میں ہماری کمیونٹی کا بہت زیادہ رش ہو گیا تھا۔ میں بھی جنتا لون کے پاس ہی رہتا تھا بہت پاکستانی مشکلات کا شکار تھے ۔ ہر بندہ وہاں امریکہ میں پندرہ سو سے دو ہزار ہفتہ کما رہا تھا یہاں پر ان کو پانچ ڈالر فی گھنٹی کی جاب ٓافر ہو رہی تھی ٓہستہ ٓہستہ پھر حالات سنبھلنا شروع ہو گئے۔ لوگوان نے اپنے کاروبار شروع کئے۔پاکستانی لوگ بہت تعاون کرتے ہیں اور ایک دوسرے کا خیال کرتے ہیں۔ پاکستانی کمیونٹی نے ہمیشہ کاروبار میں مدد کی اور حوصلہ افزائی کی۔ اب ہمارے بچے اس کلچر اور سسٹم کا حصہ بن رہے ہیں ۔ کمیونٹی سیاسی طور پر بہت فعال ہے۔پاکستانی اپنی اپنے شعبے میں بہت کمال کے لوگ ہیں ۔
ستمبر گیارہ سن دو ہزار ایک کو گزرے کئی برس بیت گئے مگر امریکہ سے یہاں آنیوالے تارکین وطن اپنے امریکہ میں گزارے وقت بارے میں بات کرنے سے بہت ڈرتے ہیں کہ کہیں کچھ ہو نہ جائے۔ کیونکہ ان میں سے اکثر وہاں غیر قانونی طور پر مقیم تھے۔