چار پاکستانی نژاد کینیڈين رکن اسمبلی منتخب

کینیڈا ميں ہونیوالے گزشتہ روز کے الیکشن ميں لبرل پارٹی کی طرف سے چار پاکستانی اميدوار واضع برتری کے ساتھ جيت گئے – ان اراکين ميں اقرا خالد ٹورانٹو کے قريبی شہر مِسّی ساگا سے اور سلمی زاہد ٹورانٹو کے ایک اور قريبی شہر سکاربرو سے منتخب ہوئی ہيں يہ دونوں مسلسل تيری بار کامياب ہوئی ہيں جبکہ تيسرے امیدوار شفقت علی کا يہ پہلا اليکشن تھا اور ان کا حلقہ انتخاب ٹورانٹو کا ايک اور قريبی شہر برمپٹن ہے جہاں پر زيادہ تر آبادی بھارتی پنجابی لوگوں (سکھوں )پر مشتمل ہے جبکہ چوتھے جیتنے والے امیدوار يا سر نقوی ہيں ان کا حلقہ کینیڈا کا دارلخلافہ آٹوا ہےجہاں سے پہلی مرتبہ فیڈرل نشست پر الیکشن لڑے اور جیت گئے – يا سر نقوی اس سے قبل آٹوا ہی سے صوبہ اونٹاريو کی اسمبلُی کے رکن اور صوبائی اٹارنی جنرل

 

کینیڈا کے وزیرِ اعظم جسٹن ٹروڈو کی لبرل پارٹی سے تعلق رکھنے والی اقرا خالد نے پہلی مرتبہ سنہ 2015 میں کینیڈا کے دارالعوام کا انتخاب جیت کر سب کو حیرت میں ڈال دیا تھا۔

انھیں انصاف اور انسانی حقوق کی قائمہ کمیٹی کا ممبر نامزد کیا گیا جس کے دوران انھوں نے جنوبی ایشیا میں انسانی سمگلنگ، میانمار میں روہنگیا بحران اور چین، عراق اور ایران میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر بات کر کے عالمی توجہ حاصل کی تھی۔

اس کے علاوہ انھوں نے پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک میں خواتین اور بچوں کے تحفظ کے لیے فنڈز فراہم کرنے میں بھی اہم کردار ادا کیا۔

بھئ رہ چکے ہيں –

 

میں نے صوبہ پنجاب کے شہر بہاولپور کے ایک متوسط خاندان میں آنکھ کھولی۔ میرے والد ایک مقامی یونیورسٹی میں پروفیسر تھے۔

جب انھیں اپنی پی ایچ ڈی کے لیے برطانیہ جانا پڑا تو وہ ہم سب بچوں کو بھی ساتھ برطانیہ لے گئے۔ برطانیہ میں تین سال تک رہنے کے بعد جب میں 11 سال کی تھی تو واپس پاکستان آئی۔

ایک سال پاکستان میں گزارنے پر ہمارے والدین نے محسوس کیا کہ اب ہمارے بچے پاکستان کے نظام تعلیم سے زیادہ ہم آہنگ نہیں ہو رہے، چنانچہ ہمارے والد نے کینیڈا کے لیے اپلائی کیا۔

سنہ 1998 میں، میں جب 12 سال کی تھی تو کینیڈا چلی گئی۔ مجھے بچپن ہی سے کینیڈا میں ایڈجسٹ ہونے میں کوئی مشکل پیش نہیں آئی۔ سکول جاتی تو میرا بہت زیادہ وقت لائبریری میں گزرتا۔ جب سکول میں تھی تو سکول کا اخبار بنایا کرتی تھی۔

بچپن میں صحافی بننے کا شوق تھا مگر بعد میں امریکہ سے قانون کی ڈگری حاصل کی۔

یہ سنہ 2014 کی بات ہے جب کینیڈا کے 2015 انتخابات کی تیاریاں جاری تھیں اور سیاسی پارٹیوں میں نامزدگی کا مرحلہ شروع ہونے والا تھا۔

ایک شام میں معمول کی طرح ریسٹورنٹ گئی تو میرے والد نے مجھے بلایا اور انتہائی سنجیدگی سے کہا کہ انتخابات ہونے والے ہیں، میں سمجھتا ہوں کہ تم میں بہت صلاحیت ہے اور تم سوشل ورک میں بھی حصہ لیتی ہوں، چلو نامزدگی حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

میں نے اپنی رضامندی ظاہر کر دی جس کے بعد میرے والد نے عملاً نامزدگی حاصل کرنے کی مہم چلا دی۔ ہمارے ریسٹورنٹ میں بہت لوگ آتے جاتے تھے اور یہ ہمارے رابطے کا بڑا ذریعہ بھی تھا۔

میرے والد نے وہاں پر ہی اپنے دوستوں اور کمیونٹی کے لوگوں سے مشاورت شروع کر دی۔ جہاں کچھ لوگوں نے بہت سراہا جبکہ چند لوگوں نے مخالفت بھی کی۔

About محسن عباس 206 Articles
محسن عباس کینیڈا میں بی بی سی اردو، ہندی اور پنجابی کے ساتھ ساتھ دیگر کئی بڑے اخبارات کیلئے لکھنے کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ امیگریشن ، زراعت اور تحقیقی صحافت میں بیس برس سے زائد کا تجربہ رکھتے ہیں۔