کینیڈا میں پاکستانی رضا کارکے افطار ڈنر کا چرچا

محسن عباس

سیسکیچوان، کینیڈا

“بس چند ہی ماہ بعد میرے ابو اپنی نوکری سے ریٹائر ہوکر اگلے برس مستقل طور پر میرے پاس کینیڈا منتقل ہونے کی خواہش رکھتے تھے مگر کرونا کے مرض نے انہیں اس کا موقع ہی نہ دیا۔”

کینیڈا کے مغربی صوبے سسکیچوان کے شہر ریجائنہ میں مقیم اکتیس سالہ پاکستانی نژاد حارث خاں کے والد اور والدہ دونوں تین ماہ کے مختصر عرصے میں کرونا جیسے مرض سے ہلاک ہوگئے۔

انہوں نے بی بی سی اردو کو بتایا کہ ان کے والد نے زندگی بھر انہیں ہمیشہ سب سے پہلے سالگرہ کی مبارک دی۔ انہوں نے زندگی میں کھبی میری سالگرہ مس نہیں کی۔ میں دنیا میں کہیں بھی ہوتا تھا مگر پھر بھی وہ سب سے پہلے مجھے سالگرہ کی مبارک بارہ بج کر ایک منٹ پر دیتے۔

حارث خان کے خاندان کا تعلق پاکستان سے ہے۔ ان کے والد گزشتہ پینتیس برس سے مسقط، عمان میں ملازمت کررہے تھے۔ رواں برس جنوری کے مہینے کی پندرہ تاریخ کو حارث کی سالگرہ سے دو دن قبل ان کے والد کرونا کے باعث انتقال کر گئے۔

“میرے خیالوں میں تھا کہ کہیں سے میرے ابو کال کریں اور سالگرہ مبارک کہیں ۔ میں نےزندگی میں پہلی بار مجھے وہ کال نہ آئی۔ پھر مجھے احساس ہوا کہ وہ دنیا میں نہیں رہے۔”

حارث نے نم ٓانکھوں سے بتایا کہ جب ان کے والد کی حالت انتہائی نازک تھی تو انہوں نے میرے گھر والوں کو کہا کے میرے بیٹے کو برتھ ڈے وش کرنا نہ بھولنا۔

اپنے والد کی وفات کے غم سے نڈھال حارث نے اپنی مقامی کمیونٹی کی خدمت کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس کیلئے انہوں نے رضا کاروں کی ایک ٹیم بنائی اور ریجائنہ شہرمیں کرونا وبا کے دوران ضرورت مند افراد کو گھر گھر کھانا پہنچانے کا سلسلہ شروع کیا جس کو مقامی کمیونٹی میں بہت سراہا جا رہا ہے۔

تین بہن بھائیوں میں حارث خاں سب سے بڑے ہیں۔ وہ پندرہ برس کی عمر میں کینیڈا ٓائے۔ اب وہ یہاں پر ریجائنہ شہر کی ایک مقامی کمپنی میں آئی ٹی کے شعبے سے منسلک ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ سٹیج پر بطور کامیڈین بھی اپنےفن کا مظاہرہ کرچکے ہیں۔ بطور کامیڈین اور کالج و یونیورسٹی کے زمانے سے ہی وہ سماجی کاموں میں حصہ لیتے آرہے ہیں۔ وہ اپنے شہر کی کمیونٹی میں بطور سماجی کارکن بڑے متحرک ہیں۔

جنوری کے اواخر میں ان کے والد کو پاکستان کے شہر لاہور میں دفن کیا گیا۔ اس دوران ان کی والدہ اور بہن نے بھی کچھ دیرمزید پاکستان میں رکنے کا کا ارادہ کیا۔ لاہور میں قیام کے دوران ان کی والدہ کو بھی کرونا ہوگیا اور وہ 22 اپریل کو جان کی بازی ہار گئیں۔ اس ہی دن کینیڈا پاکستان ڈائریکٹ فلائٹس بند ہونے کی وجہ سے حارث اپنی والدہ کے جنازے میں شریک نہ ہوسکے۔

والد کی وفات کے بعد میں نے کھبی سوچا بھی نہ تھا کہ میری والدہ بھی اتنی جلدی اللہ کے حضور پیش ہو جائیں گی۔ 

انہوں نے مزید بتایا کہ اپنے والد کی وفات کے بعد انہوں نے ارادہ کیا تھا کہ میں رمضان میں

ضرورت مند طالبعلموں اور ضرور مند افراد کو گھر گھر افطار کیلئے کھانا پہچانے کا بندوبست کرونگا۔

حارث اور ان کی ٹیم روزانہ قریب اسی کےلگ بھگ ضرورت مند افراد کو کھانا گھر گھر پہنچاتے ہیں۔ ابھی تک انہوں نے بیس ہزارکینیڈین ڈالر (قریبا پچیس لاکھ پاکستانی روپے) کا کمیو نٹی فنٖڈ اکٹھا کیا ہے۔ دن بھر کام کاج کے بعد ان کی قریبا دس افراد پر مشتمل کی ٹیم کھانا تیار کرکے اس چھوٹے سے شہر میں ضرورت مند افراد کو گھر گھر پہنچاتے ہیں۔

مقامی کینیڈین کمیونٹی نے اس میں مالی امداد کی اور رضا کاروں نے اس کام میں میرا بھرپور ساتھ دے رہے ہیں۔

ہم نے یہ کام شروع میں صرف مسلمان افراد اور طالبعلموں کیلئے شروع کیا مگر آہستہ آہستہ مقامی کمیونٹی میں غیر مسلم لوگوں نے بھی اس کار خیر کیلئے امداد کا سلسلہ شروع کیا۔ ہم نے پھر غیر مسلم ضرورت مند خاندانوں کیلئے بھی کھانے کی تقسیم کا سلسلہ شروع کردیا۔۔

میں ریجائنہ شہرایک ایسے شخص کو جانتا تھا جو حال ہی میں کرونا کی وجہ سے ہلاک ہوگیا ۔ ہم اس کے گھر کھانا دینے گئے تو وہ ہم  پاکستانیوں کے کے اس رویے سے بڑے متاثر ہوئے۔

حارث خاں امید کرتے ہیں کہ ہماری پاکستانی نژاد شہریوں کے اچھے کاموں کی وجہ سے مقامی کمیونٹی میں ہماری عزت  میں مزید اضافہ ہوگا۔

 ہمارے شہر میں پاکستانیوں کی اکثریت ایس او پیز پرعملدرامد کرتی ہے۔ مگر جب میں پاکستان گیا تو لوگ میرے ماسک پہننے پر ہنستے تھے۔ میرا پاکستانیوں کو پیغام ہے کہ میرے ماں باپ سب بہت احتیاط کرتے رھے مگر اس کے باوجود وہ کرونا کا شکار ہوگئے۔ کرونا سے بچنے کیلئے احتیاط کریں۔ اگر آپ اپنے بہن بھائیوں سے پیار کرتے ہیں تو احتیاط کریں۔ میں نے تین مہینے میں ماں باپ کھو دئیے۔ تیسری لہر بہت ہی خطرناک ہے۔ اس کا علاج بھی سستا نہیں۔

ان کے والد پاکستان جاتے تو مختلف رسیتورانوں پر کھانے پینے اور لوگوں سے ملنے ملانےکے بہت شوقین تھے۔ زیادہ تر وہ کینیڈا گرمیوں میں آتے تھے۔ سردیوں کا موسم ان کو پسند نہیں تھا۔

حارث کا کہنا ہے کہ انہوں نے کھبی خواب میں بھی نہیں سوچا تھا کہ ایسا موقع آئے گا کہ وہ اپنے والدین کو تین ماہ میں کھو دینگے۔

About محسن عباس 205 Articles
محسن عباس کینیڈا میں بی بی سی اردو، ہندی اور پنجابی کے ساتھ ساتھ دیگر کئی بڑے اخبارات کیلئے لکھنے کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ امیگریشن ، زراعت اور تحقیقی صحافت میں بیس برس سے زائد کا تجربہ رکھتے ہیں۔